بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
موضوع غیبت
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۚ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِیمٌ [1]
اے مومنوں اکثر گمانوں سے اجتناب کریں یقینا بعض گمان گناہ ہیں اور تجسس مت کریں اور غیبت مت کریں کیا تم میں سے کوئی ایک پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اس کو برا سمجھتے ہو تقوی الہی اختیار کریں یقینا اللہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے ۔
شان نزول لایغتب ۔۔۔۔
یہ آیہ دو صحابہ پیامبر اکر م ﷺ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے حضرت سلمان اور اسامہ کی غیبت کی ان دو نے سلمان ؓ کو رسول خداﷺ کے پاس بھیجا کہ خوئی غذا لے آئے رسول اللہ ﷺ نے اسامہ (مسئول مالیات) کے پاس بھیجا اسامہ نے کہا کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہے ان دو نے یہ سنا تو سلمان اور اسامہ کے بارے میں غیبت کی اور کہا اسامہ بخیل ہیں پھر یہ رسول ﷺ کی خدمت میں آئے تو رسول اللہ ﷺ نے کہا میں تمہارے میں منہ میں سبز گوشت کا رنگ دیکھ رہا ہوں انہوں نے کہ یا رسول اللہ ﷺ آج تو ہم نے گوشت نہیں کھایا رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں تم نے آج اسامہ و سلمان کا گوشت کھایا ہے انکی غیبت کی ہے اور یہ آیہ پھر نازل ہوئی۔
تعریف غیبت
اس سے مراد کسی شخص کی طرف ایسی نسبت دینا کہ اگر وہ سنے تو ناراض ہو اب وہ نقص اس کے بدن کا ہو یا اسکی صفات کا ہو مثلا فلاں کا قد چھوٹا ہے یا فلاں بخیل ہے اس کو سن کر وہ ناراض ہو
امام خمینی فرماتے ہیں کہ غیبت صرف الفاظ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اشارہ اور ہر اس حکایت کو شامل ہے جو کسی کے نقص پر دلالت کرے اور کراھت شخص مغاب علیہ دخیل نہیں ہے ۔
جس نقص یا عیب کو بیان کیا جا رہا ہے وہ اس میں پایا جاتا ہو اگر نہیں پایا جاتا تو وہ تھمت ہے جو غیبت سے بڑا گنا ہ ہے ۔
شرائط غیبت
۱۔ جسکی غیبت کی جارہی ہے وہ مومن ہو ۔
۲۔ غیبت نقص وعیب میں شمارہوتی ہے ناکہ کمال میں ۔
۳۔ وہ عیب بیان شدہ عموم عوام میں ناپسندیدہ ہو۔
۴۔غیبت کے وقت کوئی سننے والا ہو ۔
درج بالا شرائط کی صور ت میں غیبت محسوب ہو گی
غیبت فقھی لحاظ سے گناہ کبیرہ ہے اور عوام میں یہ ایک معروف گناہ ہے اور اس قدر عام ہے کہ اس میں قباحت ختم ہو گئی ہے اگر کسی کو کہیں کہ غیبت ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس کے سامنے بھی کہوں گا یہ اور بد ہے اور انتہائی غلط توجیہ ہے اخلاقی لحاظ سے بھی بد عمل ہے جو معاشرہ کو تباہ کرسکتا ہے یعنی اجتماعی بیماری ہے ۔
غیبت در نگاہ احادیث
۱۔مَنِ اغْتَابَ مُسْلِماً أَوْ مُسْلِمَةً لَمْ یَقْبَلِ اللَّهُ صَلَاتَهُ وَ لَا صِیَامَهُ أَرْبَعِینَ یَوْماً وَ لَیْلَةً إِلَّا أَنْ یَغْفِرَ لَهُ صَاحِبُهُ.[2]
جس نے بھی کسی مسلمان مرد یا مسلمان عورت کی غیبت کی اللہ تعالی اس کی نماز اور روزہ چالیس دن تک قبول نہیں کر گا مگریہ صاحب غیبت معاف کردے ۔
۲۔ اَلسامِعُ لِلغیبَةِ کَالمُغتابِ؛[3]
غیبت سننے والا غیبت کرنے والے کی طرح ہے ۔
۳۔ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ اَلْغِیبَةُ أَشَدُّ مِنَ اَلزِّنَا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غیبت زنا سے بد تر ہے ۔
بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِیمِ
پھر حضرت زینب سلام اللہ درمیان میں آگئ اور کہا اے ابن زیاد اگر اس کو قتل کرنا ہے تو ھمیں بھی قتل کرو .امام علیہ نے حضرت زینب سلام اللہ کی طرف نگاہ کیا اور فرمایا پھوپھو جان آپ صبر کریں میں جواب دیتا ہوں.پھر امام علیہ السلام نے ابن زیاد کی طرف نگاہ کرکے فرمایا
«أَبِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنی یَابْنَ زِیاد، أَما عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنا عادَةٌ وَ کَرامَتَنَا الشَّهادَةُ۔
(اے ابن زیاد! تو ھمیں موت سے ڈراتا ہے ؟کیا تو نہیں راہ خدا میں قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شھادت ہمارے لیے فخر اور سعادت ہے )
آج کے زمانے میں اگر ہم سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کی زندگی کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے امام کی طرح جرات مندانہ زندگی کیا.جب طاغوت نے ڈرانے کی کوشش کیا تو جواب دیا ہم قتل سے ڈرنے والوں میں سے نہیں بلکہ راہ خدا میں قتل ہونے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں . سید مقاومت نے یہ درس کہا لیا ؟ حقیقت میں سید مقاومت مکتب رہبری کے پروردہ ہے اور رہبر معظم مکتب امام خمینی کے پروردہ ہے اور امام خمینی مکتب سید شھداء امام حسین علیہ السلام کے پروردہ ہے .خود امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا (ما ھر چی داریم از سید شھداء داریم) اسی وجہ سے جس نے بھی مکتب حسین سے درس لی ہو وہ وقت کے یزید کے خلاف قیام کرتا ہے اور ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے . امام حسین علیہ السلام کا وقت کے یزید کو لرکار کے جواب دیا (ألا وَإنَّ الدَّعیَّ ابنَ الدَّعیِّ قَد رَکَّزَ بَینَ اثنَتینِ بَینَ السُلَّهِ وَالذِلَّةِ وَهَیهاتَ مِنّا الذِلَّةُ) اس نابکار کے نبکار بیٹے نے مجھے دو راستوں پر کھڑا کیا ہے ایک ذلتکا راستہ اور ایک عزت کا راستہ اور میں حسین ذلت سے دور ہوں . اسی طرح سید مقاومت نے سر نہیں جھکایا بلکہ عزت کا راستہ اختیار کیا اور اپنے مولا کی طرح شھادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوگئےتفسیر سورہ حجرات آیہ 12
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲﴾۱۲۔
اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان یقینا گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، اللہ یقینا بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
(تفسیر اہم نکات) 1 اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ: سند اور دلیل کے بغیر کسی قسم کا موقف اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ 2 اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ: بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ یعنی بدگمانی پر اثرات مترتب کرنا اور اس بدگمانی کی بنیاد پر کسی مومن پر الزام عائد کرنا گناہ ہے 3 لَا تَجَسَّسُوۡا: اور دوسروں کے راز جاننے کی کوشش نہ کرو۔ دوسروں کے عیوب جاننے اور ان کے نجی معاملات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی شرعاً ممانعت ہے 4 وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا: تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے 5 اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا: غیبت اس حد تک گناہ کبیرہ اور اہانت مومن ہے جس طرح اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ اس میں دو باتیں مشترک ہیں: مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا اس فوت شدہ شخص کی انتہائی اہانت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مردہ اپنا دفاع اور صفائی پیش نہیں کر سکتا ہے۔ اسی طرح وہ غائب شخص جس کی غیبت ہو رہی ہے وہ بھی اپنی صفائی پیش نہیں کر سکتا 7 فَکَرِہۡتُمُوۡہُ: مردے کا گوشت کھانے سے تو تم نفرت کرتے ہو چونکہ یہ بات تمہارے محسوسات میں ہے لیکن انسانی قدروں کو تم محسوس نہیں کرتے اور قدروں کی پامالی سے نفرت نہیں کرتے اہم نکات ۱۔ مومن کی عزت و آبرو کو وہی تحفظ حاصل ہے جو کعبۃ اللہ کو ہے۔حسن نصر کو ہم رہبر کی دید سے دیکھیں رہبر فرماتے ہیں حسن نصر اللہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک مکتب و راہ ہیں اور اس راہ کو دینگے۔
حسن نصر اللہ وہ ھستی جس نے خود مکتب و ملت کو ھویت دی ہے ۔
مکتب علوی و حسینی پر ایسے چلے ہیں کہ آ ب خود ایک مکتب بن گئے ہیں ۔
مکتب انسان شناسی اور جھان شناسی سے کا نتیجہ ہے جسمیں زندگی کا مقصد اور اسے پانے کا راستہ اور اس راستے کی مشکلات اور ان مشکلات کو عبور کرنے کا طریقہ آور اس جھاں میں جینے کا سلیقہ بتایا جائے
اس اصطلاح کے مطابق ھم مکتبہ نگاہ حسن نصر اللہ کی طرف کریں
اسی نگاہ سے آج ہمیں اپنا مقصد اور اس تک پہنچنے کا راستہ اور اس میں آنے والی
مشکلات اور انکو عبور کرنے کا طریقہ معلوم ہوگا
لھذا جو مکتب حسن نصر اللہ پر چلے گا وہ لقاء خدا تک پہنچ جائے گا اور مصداق انی جاعل فی الارض خلیفہ بن جائے گا
*بسمہ اللہ رب الشہداء*
مجلس ترحیم سید مقاومت *شہید سید حسن نصر الله رضوان اللہ تعالیٰ*
*نقیب ممبر*
بردار عقیل رضا
*تلاوت کلام الھی*
بردار تنویر عباس مطہری
*دعائے ندبہ*
برادر ملک زین علی رضا
*تفسیری نکات سورہ حجرات آیت نمبر 14*
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۴﴾
۱۴۔ بدوی لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ہیں۔ کہدیجئے: تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو: ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
برادر مولانا تابعدار حسین ہانی
برادر کاشف حسین
*خطیب مجلسِ عزا*
برادر بشارت حسین
صدائے امید
مومنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ان میں بعض نے اپنی زمہ داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور ذرا بھی نہیں بدلے
یہ ہیں مومن جو دشمن اسلام کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور شہادتیں دیتے ہیں آج غزہ کا کوئی بھی حامی ہے تو وہ شیعیان حیدر کرار ہیں
خدا وندمتعال سے دعا گو ہیں کہ خدا وند عالم مظلومین غزہ و یمن و لبنا کی مدد فرمائے