صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز
صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز

صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز

تفسیر سورہ حجرات آیہ 12 برادر عقیل رضا

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

موضوع غیبت

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۚ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِیمٌ [1]

اے مومنوں اکثر گمانوں سے اجتناب  کریں  یقینا بعض گمان گناہ ہیں  اور تجسس مت کریں اور غیبت مت کریں کیا تم میں سے کوئی ایک پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اس کو برا سمجھتے ہو تقوی الہی اختیار کریں یقینا اللہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے ۔

شان نزول لایغتب ۔۔۔۔

یہ آیہ دو صحابہ پیامبر اکر م ﷺ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے حضرت سلمان اور اسامہ کی غیبت کی   ان دو نے سلمان ؓ کو رسول خداﷺ کے پاس بھیجا کہ خوئی غذا لے آئے رسول اللہ ﷺ نے اسامہ (مسئول مالیات) کے پاس بھیجا اسامہ نے کہا کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہے ان دو نے یہ سنا تو سلمان اور اسامہ کے بارے میں غیبت کی اور کہا اسامہ بخیل ہیں پھر یہ رسول ﷺ کی خدمت میں آئے تو رسول اللہ ﷺ نے کہا میں تمہارے میں منہ میں سبز گوشت کا رنگ دیکھ رہا ہوں انہوں نے کہ یا رسول اللہ ﷺ آج تو ہم نے گوشت نہیں کھایا رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں تم نے آج اسامہ و سلمان کا گوشت کھایا ہے انکی غیبت کی  ہے اور یہ آیہ پھر نازل ہوئی۔

تعریف غیبت

اس سے مراد کسی شخص کی طرف ایسی نسبت دینا کہ اگر وہ سنے تو ناراض ہو اب وہ نقص اس کے بدن کا ہو یا اسکی صفات کا ہو مثلا فلاں کا قد چھوٹا ہے یا فلاں بخیل ہے اس کو سن کر وہ ناراض ہو

امام خمینی فرماتے ہیں کہ غیبت صرف الفاظ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اشارہ اور ہر اس حکایت کو شامل ہے جو کسی کے نقص پر دلالت کرے اور کراھت شخص مغاب علیہ دخیل نہیں ہے ۔

جس نقص یا عیب کو بیان کیا جا رہا ہے وہ اس میں پایا جاتا ہو اگر نہیں پایا جاتا تو وہ تھمت ہے جو غیبت سے بڑا گنا ہ ہے ۔

شرائط غیبت

۱۔ جسکی غیبت کی جارہی ہے وہ مومن ہو ۔

۲۔ غیبت نقص وعیب میں شمارہوتی ہے ناکہ کمال میں ۔

۳۔ وہ عیب بیان شدہ عموم عوام میں ناپسندیدہ ہو۔

۴۔غیبت کے وقت کوئی سننے والا ہو ۔

درج بالا شرائط کی صور ت میں غیبت محسوب ہو گی

غیبت فقھی لحاظ سے گناہ کبیرہ ہے اور عوام میں یہ ایک معروف گناہ ہے اور اس قدر عام ہے کہ اس میں قباحت ختم ہو گئی ہے اگر کسی کو کہیں کہ غیبت ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس کے سامنے بھی کہوں گا یہ اور بد ہے اور انتہائی غلط توجیہ ہے  اخلاقی لحاظ سے بھی بد عمل ہے جو معاشرہ کو تباہ کرسکتا ہے یعنی اجتماعی بیماری ہے ۔

غیبت در نگاہ احادیث

۱۔مَنِ اغْتَابَ مُسْلِماً أَوْ مُسْلِمَةً لَمْ یَقْبَلِ اللَّهُ صَلَاتَهُ وَ لَا صِیَامَهُ أَرْبَعِینَ یَوْماً وَ لَیْلَةً إِلَّا أَنْ یَغْفِرَ لَهُ صَاحِبُهُ.[2]

جس نے بھی کسی مسلمان مرد یا مسلمان عورت کی غیبت کی اللہ تعالی اس کی نماز اور روزہ چالیس دن تک  قبول نہیں کر گا مگریہ صاحب غیبت معاف کردے ۔

۲۔  اَلسامِعُ لِلغیبَةِ کَالمُغتابِ؛[3]

 غیبت سننے والا غیبت کرنے والے کی طرح ہے ۔

۳۔ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ اَلْغِیبَةُ أَشَدُّ مِنَ اَلزِّنَا 

رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا  کہ غیبت  زنا سے  بد تر ہے ۔



[1]  سورہ حجرات آیہ ۱۲

[2]  بحارالأنوار(ط-بیروت) ج 72 ، ص 258، ح 53

[3]  تصنیف غررالحکم و دررالکلم ص 221 ، ح 4443

شھادت سید حسن نصراللہ برادر شیر عباس

بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِیمِ

فقال امام زین العابدین علیہ السلام  أَبِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنی یَابْنَ زِیاد، أَما عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنا عادَةٌ وَ کَرامَتَنَا الشَّهادَةُ امام زین العابدین علیہ السلام کا ابن زیاز کو دندان شکن جواب  جس وقت امام علیہ السلام ابن زیاد کے دربار میں حاضر ہوئے تو ابن زیاد نے پوچھا کون ہو تم ؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا میں علی ابن الحسین ہوں ۔ابن زیاد کہتا ہے مگر کربلا میں علی ابنِ الحسین کو خدا نے قتل نہیں کیا ؟ آپ علیہ السلام نے اس کو جواب دیتے ہوئے فرمایا میرا ایک بھائی علی ابن الحسین تھا جس کو ظالم لوگوں نے قتل کیا. ابن زیاد نے کہا نہیں: اس کو خدا نے قتل کیا ہے! امام چهارم نے اس آیہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرمایا آیه ۴۲ سوره زمر فرمود: «أللهُ یَتَوَفَّى الاَْنْفُسَ حِینَ مَوْتِهَا»اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحوں کو لیتا  (یعنی امام علیہ السلام فرما رہے تھے کہ اگرچہ موت کے وقت خدا روح قبض کرتا ہے مگر میرے بھائی کو ظالموں نے قتل کیا) یہ جواب سن کر ابن زیاد غصے سے کہا ابھی تک اتنی جرات سے مجھے جواب دیتے ہو ؟ پھر کہا لے جاؤ اس کو قتل کردو 

پھر حضرت زینب سلام اللہ درمیان میں آگئ اور کہا اے ابن زیاد اگر اس کو قتل کرنا ہے تو ھمیں بھی قتل کرو .امام علیہ نے حضرت زینب سلام اللہ کی طرف نگاہ کیا اور فرمایا پھوپھو جان آپ صبر کریں میں جواب دیتا ہوں.پھر امام علیہ السلام نے ابن زیاد کی طرف نگاہ کرکے فرمایا

«أَبِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنی یَابْنَ زِیاد، أَما عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنا عادَةٌ وَ کَرامَتَنَا الشَّهادَةُ۔

(اے ابن زیاد! تو ھمیں موت سے ڈراتا ہے ؟کیا تو نہیں راہ خدا میں قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شھادت ہمارے لیے فخر اور سعادت ہے )

آج کے زمانے میں اگر ہم سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کی زندگی کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے امام کی طرح جرات مندانہ زندگی کیا.جب طاغوت نے ڈرانے کی کوشش کیا تو جواب دیا ہم قتل سے ڈرنے والوں میں سے نہیں بلکہ راہ خدا میں قتل ہونے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں . سید مقاومت نے یہ درس کہا لیا ؟ حقیقت میں سید مقاومت مکتب رہبری کے پروردہ ہے اور رہبر معظم مکتب امام خمینی کے پروردہ ہے اور امام خمینی مکتب سید شھداء امام حسین علیہ السلام کے پروردہ ہے .خود امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا (ما ھر چی داریم از سید شھداء داریم) اسی وجہ سے جس نے بھی مکتب حسین سے درس لی ہو وہ وقت کے یزید کے خلاف قیام کرتا ہے اور ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے . امام حسین علیہ السلام کا وقت کے یزید کو لرکار کے جواب دیا  (ألا وَإنَّ الدَّعیَّ ابنَ الدَّعیِّ قَد رَکَّزَ بَینَ اثنَتینِ بَینَ السُلَّهِ وَالذِلَّةِ وَهَیهاتَ مِنّا الذِلَّةُ) اس نابکار کے نبکار بیٹے نے مجھے دو راستوں پر کھڑا کیا ہے ایک ذلتکا راستہ اور ایک عزت کا راستہ اور میں حسین ذلت سے دور ہوں .    اسی طرح سید مقاومت نے سر نہیں جھکایا بلکہ عزت کا راستہ اختیار کیا اور اپنے مولا کی طرح شھادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوگئے

تفسیر سورہ حجرات آیہ 12 بردار مھدی حسن

تفسیر سورہ حجرات آیہ 12


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲﴾۱۲۔

اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان یقینا گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، اللہ یقینا بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

(تفسیر اہم نکات) 1 اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ: سند اور دلیل کے بغیر کسی قسم کا موقف اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ 2 اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ: بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ یعنی بدگمانی پر اثرات مترتب کرنا اور اس بدگمانی کی بنیاد پر کسی مومن پر الزام عائد کرنا گناہ ہے 3 لَا تَجَسَّسُوۡا: اور دوسروں کے راز جاننے کی کوشش نہ کرو۔ دوسروں کے عیوب جاننے اور ان کے نجی معاملات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی شرعاً ممانعت ہے 4 وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا: تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے 5 اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا: غیبت اس حد تک گناہ کبیرہ اور اہانت مومن ہے جس طرح اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ اس میں دو باتیں مشترک ہیں: مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا اس فوت شدہ شخص کی انتہائی اہانت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مردہ اپنا دفاع اور صفائی پیش نہیں کر سکتا ہے۔ اسی طرح وہ غائب شخص جس کی غیبت ہو رہی ہے وہ بھی اپنی صفائی پیش نہیں کر سکتا 7 فَکَرِہۡتُمُوۡہُ: مردے کا گوشت کھانے سے تو تم نفرت کرتے ہو چونکہ یہ بات تمہارے محسوسات میں ہے لیکن انسانی قدروں کو تم محسوس نہیں کرتے اور قدروں کی پامالی سے نفرت نہیں کرتے اہم نکات ۱۔ مومن کی عزت و آبرو کو وہی تحفظ حاصل ہے جو کعبۃ اللہ کو ہے۔

سید حسن نصر اللہ بعنوان مکتب

حسن نصر کو ہم رہبر کی دید سے دیکھیں رہبر فرماتے ہیں حسن نصر اللہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک مکتب و راہ ہیں اور اس راہ کو دینگے۔

حسن نصر اللہ وہ ھستی جس نے خود مکتب و ملت کو ھویت دی ہے ۔

مکتب علوی و حسینی پر ایسے چلے ہیں کہ آ ب خود ایک مکتب بن گئے ہیں ۔

مکتب انسان شناسی اور جھان شناسی سے کا نتیجہ ہے جسمیں زندگی کا مقصد اور اسے پانے کا راستہ اور اس راستے کی مشکلات اور ان مشکلات کو عبور کرنے کا طریقہ آور اس جھاں میں جینے کا سلیقہ بتایا جائے 

اس اصطلاح کے مطابق ھم مکتبہ نگاہ حسن نصر اللہ کی طرف کریں 

اسی نگاہ سے آج ہمیں اپنا مقصد اور اس تک پہنچنے کا راستہ اور اس میں آنے والی 

مشکلات اور انکو عبور کرنے کا طریقہ معلوم ہوگا

لھذا جو مکتب حسن نصر اللہ پر چلے گا وہ لقاء خدا تک پہنچ جائے گا اور مصداق انی جاعل فی الارض خلیفہ بن جائے گا

تفسیری نکات سورہ حجرات آیت ۱۴ کاشف حسین خان


قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لکِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمانُ فِی قُلُوبِکُمْ وَ إِنْ تُطِیعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لا یَلِتْکُمْ مِنْ أَعْمالِکُمْ شَیْئاً إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ «14»
بدوی لوگ کہتے ہیں ہم اہمان لائے ہیں کہدیجئےتم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں کچھ  کمی نہیں کرے گایقینا اللہ بخشنے والا ، رحم کرنے والاہے
اہم نکات
اعراب سے مراد بدوؤں سے ہیں، جن میں سے کچھ مومن تھے، جیسا کہ سورۂ توبہ میں ان کی تعریف کی گئی ہے:«وَ مِنَ الْأَعْرابِ مَنْ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ»(۱)
"، لیکن ان میں سے بعض اپنے آپ کو بلند مرتبہ اور ایمان دار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ وہ صرف ایک تازہ مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔
اسلام اور ایمان کے درمیان فرق
فرق در عمق
اسلام ظاہری رنگ ہے لیکن ایمان تمسک کا نام ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اس آیت کے موقع پر فرمایا«وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً» (2) 
"اسلام رنگ الھی ہے"، اور آیت کی تفسیر میں 
«فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‌» «3» 
کی تفسیر میں فرمایا: "خدا کی رسی سے تمسک یعنی یہی ایمان ہے۔" «4»
انگیزہ میں فرق
بعض اوقات اسلام قبول کرنے کا محرک مادی فوائد یا حفظ و سلامتی کا حصول ہے، لیکن ایمان کا انگیزہ یا محرک فقط اور فقط معنوی ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "اسلام قبول کرنے سے انسان کا خون محفوظ(کافر نہیں رہتا جس سے جنگ کا حکم ہے) رہے گا اور مسلمانوں کے ساتھ شادی جائز ہوگی، لیکن آخرت کا توشہ فقط اور فقط ایمان پر منحصر ہے۔(۵)
فرق عملی
عمل کے بغیر اسلام کا اقرار ممکن ہے، لیکن ایمان کے ساتھ لازما عمل بھی ہونا چاہیے، جیسا کہ ہم حدیث میں پڑھتے ہیں: 
 «الایمان اقرار و عمل و الاسلام اقرار بلاعمل» «6» 
پس ایمان میں اسلام پوشیدہ ہے۔لیکن اسلام میں ایمان پوشیدہ نہیں ہے۔
ایک اور حدیث میں اسلام کو مسجد الحرام سے تشبیہ دی گئی ہے اور کعبہ کو ایمان سے جو مسجد الحرام کے وسط میں واقع ہے۔ (۷)
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: ایمان وہ چیز ہے جو دل مستقر ہو اور جس کے وسیلے سے انسان خدا تک پہنچتا ہے اور عمل دل میں اس ایمان کی تصدیق کرتا ہے۔ لیکن اسلام ایک ایسی چیز ہے جو قول و فعل میں ظاہر ہوتی ہے، بھلے ہی وہ دل میں نہ ہو۔(۸)
رتبہ میں فرق
اس حدیث میں ہم پڑھتے ہیں:ایمان اسلام سے ایک درجہ بلند ہے اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ بلند ہے، اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بلند ہے، اور لوگوں میں کوئی چیز قدرے یقین میں بلند تقسیم نہیں کی گئی ہے۔(۹)
پیغامات آیت
(۱) ہمیں کسی بھی دعوے اور نعروں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ 
«و قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا»
(۲) ہمیں غلط دعووں کو روکنا چاہئے۔
«قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا»
(۳)جو شخص اپنی حریم کو برقرار رکھتا ہے اور اپنے آپ کو اس سے زیادہ پیش نہیں کرتا ہے۔
«قُولُوا أَسْلَمْنا»
(۴)اسلام ایک ظاہری چیز ہے لیکن ایمان کا تعلق دل سے ہے۔
«فِی قُلُوبِکُمْ»
(۵)کمال کا دعویٰ کرنے والوں کو اس طرح بولنا چاہیے کہ وہ کمال حاصل کرنے سے مایوس نہ ہوں۔
«وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمانُ فِی قُلُوبِکُمْ»
(۶)ایمان حاصل کرنے کا راستہ عمل و اطاعت ہے نہ کہ زبانی دعوے۔ 
لَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمانُ‌ ... وَ إِنْ تُطِیعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ‌ 
(۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ آتی ہے اور یہ عصمت کی نشانی ہے۔
اور نبی ہی ہیں کہ جن کی اطاعت بغیر چون وچراں  کے کرنی چاہئے۔ 
«إِنْ تُطِیعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ»
(۸) خدا عادل ہے اور انسان کے اعمال کی پاداش میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کرتا۔ (مناسب مدیریت کا مطلب یہی ہے کہ کسی کے حقوق میں ذرہ برابر بھی کمی نہ کی جائے۔ 
«لا یَلِتْکُمْ مِنْ أَعْمالِکُمْ شَیْئاً»
(۹)اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت  اللہ کی مغفرت اور رحمت حاصول کی بنیاد ہے۔
طِیعُوا ... إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ‌

حوالہ جات
(۱)توبه، 99.
(۲)بقره، 138.
(۳)بقره، 256.
(۴)کافى، ج 2، ص 14.
(۵)کافى، ج 2، ص 24.
(۶)کافى، ج 2، ص 24.
جلد 9 - صفحه 197
(۷)کافى، ج 2، ص 52.
(۸)کافى، ج 2، ص 26.
(۹)  .[الکافی : 2/52/6]

مجلس ترحیم سید مقاومت سید حسن نصر اللہ

*بسمہ اللہ رب الشہداء* 

 مجلس ترحیم سید مقاومت *شہید سید حسن نصر الله رضوان اللہ تعالیٰ* 

 *نقیب ممبر*

بردار عقیل رضا 

 *تلاوت کلام الھی* 

بردار تنویر عباس مطہری 

 *دعائے ندبہ* 

برادر ملک زین علی رضا 

 *تفسیری نکات سورہ حجرات آیت نمبر 14* 

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۴﴾

۱۴۔ بدوی لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ہیں۔ کہدیجئے: تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو: ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

برادر مولانا تابعدار حسین ہانی

برادر کاشف حسین 

 *خطیب مجلسِ عزا* 

برادر بشارت حسین 

صدائے امید

دین اسلام کفار کی مایوسی کے باعث کاشف حسین

﴿الْیوْمَ یئِسَ الَّذِینَ کفَرُوا مِنْ دِینِکمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا.﴾ (المائدة: ۳)

آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا

خدا وند متعال نے اس آیت میں چار اہم نکات بیان کیے ہیں

۱یاٗس کفار از دین                ۲ اکمال دین              ۳اتمام نعمت خدا       

۴رضایت خدا بر دین اسلام

۱یاٗس کفار از دین

خدا نے  نہ روز بعثت کو ، نہ شب ہجرت ، نہ فتح مکہ اور نہ رسول ﷺ خدا ان جنگوں کو یاٗس کفار کا دن قرار دیا جو رسول خدا ﷺ نے کفار سے جیتیں لیکن ایک ہی دن ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے روز یاٗس کفار کہا وہ روز غدیر ہے اور اسی دن کو خدا نے کہا کہ کفار تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں کیوں خدا نے اسی دن کو یہ آیہ نازل کی ؟؟؟؟

کیونکہ کفار اس امید کے ساتھ کے تھے کہ کیوں کہ رسول خدا ﷺ کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے تو جب رسول خدا ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو دین اسلام ختم ہو جائے گا لیکن روز غدیر رسول اللہ ﷺ نے امام علی ؑ کو اپنا وصی، جانشین اور امت کا رہبر بنا کر کفار کے تمام تر منصوبوں اور سوچوں کو خاک میں ملا دیا جس سے کفار مایوس ہو گئے

روز اکمال دین

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مکمل قواعد و ضوابط وضع کر لیے جائیں لیکن امت اور معاشرے کے لیے ایک معصوم اور کامل رہنما مقرر نہ کیا جائے تو قواعد و ضوابط نامکمل رہ جائیں گے یعنی اگر اگر انسانی معاشرہ چاہیے  جتنی بھی بلندی پر چلا جائے اور عبادت گزار بن جائے تو اس کی نماز و عبادتوں کا کوئی فائدہ نہیں جب تک وہ ایک معصوم امام اور وصی رسول کو نہ مانے کیونکہ امام معصوم کا کام قوانین خدا کو اجرا کرنا ہے اگر وہ ہی نہ ہو معاشرہ دین ناقص پر چل پڑے گا

 

روزاتمام نعمت خدا

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے سب سے بڑی نعمت کو امامت (قیادت) اور ہدایت کی نعمت کے طور پر متعارف کرایا ہے اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو جائیں اور لوگوں کو بغیر کسی جانشین کے چھوڑ دیں تو اس کی مثال ایسی ہےکہ جیسے ایک چرواہا اپنے ریوڑ کو تنہا چھوڑ دے یعنی رسول خدا کی رحلت کے بعد امت خدائی قیادت کے بغیر نعمت کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟ یعنی امامت خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے جس طرح ہم ہر نماز میں ہر رکعت کے اندر سورہ حمد میں خدا سے کہتے ہیں کہ خدایا ہمیں اس راستے سے ہرگز دور نہ کرنا جس پر تو نے نعمتیں نازل کیں یہاں نعمتوں سے مراد پھل مال دولت نہیں بلکہ آئمہ علیہ السلام ہیں

۴رضایت خدا بر دین اسلام

اس روز کے بعد خدا نے کیوں کہا کہ میں اس دین یعنی اسلام پر راضی ہوں کیونکہ خدا کی رضا یہ ہے جب میرے قوانین کامل ہو گئے تو جب قانون کاملہ اورعدل و انصاف ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے تو خدا کی رضا حاصل ہو جائے گی۔

جب دین کامل ہو گیا تو خدا نے فرمایا کفار تمہارے دین سے خوف زدہ ہو چکے ہیں اس بات کی واضح تفسیر آج کا زمانہ ہے کہ آج اسرائیل و امریکہ اور اس کے حواری اس دین کامل کے ماننے والے شیعہ سے اسقدر مایوس ہو چکا ہے کہ وہ پوری دنیا میں اس خاتمے کا خواہشمند ہے اور وہ اس دین کے غلبے جس کا قرآن میں خود خدا نے وعدہ کیا ہے اس ڈر کر اس کے مقابلے کے لئے پہلے سے تیاری کر رہا ہے

لیکن آج عالم تشیع کے دو گروہ ہیں

اعتقادی شیعہ                                     سلوکی شیعہ

اعتقادی شیعہ: جو فقط عقائد تشیع پر اکتفاء کیے بیٹھے ہیں بعض تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں یہی عقائد کافی ہیں اگر نماز روزہ نہ بھی کریں تو کوئی مسئلہ نہیں

سلوکی شیعہ:  وہ عقائد تشیع کو لے آگے بڑھے اور دین اسلام پر عمل کرتے ہوئے وقت کے فرعون نمرود کے خلاف بنر آزما ہوئے جس کی تازہ مثال حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن ، حشد شعبی عراق اور سپاہ قدس و سپاہ پاسداران ہیں

یہ انہی مومنین میں سے ہیں جنہوں رسول ﷺ سے وعدہ کیا کہ ہم ہمیشہ حق کے ساتھ رہیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے اور آج حزب اللہ انصار اللہ نے مظلومین غزہ کی حمایت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ یہ ان مومنین میں سے ہیں جنہوں نے اللہ اور رسول ﷺ پیچھے نہ ہٹنے کا وعدہ کیا اور جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے

﴿ مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن یَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا﴾
[
 الأحزاب: 23]

مومنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ان میں بعض نے اپنی زمہ داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور ذرا بھی نہیں بدلے

 

یہ ہیں مومن جو دشمن اسلام کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور شہادتیں دیتے ہیں آج غزہ کا کوئی بھی حامی ہے تو وہ شیعیان حیدر کرار ہیں

خدا وندمتعال سے دعا گو ہیں کہ خدا وند عالم مظلومین غزہ و یمن و لبنا کی مدد فرمائے

 کاشف حسین

*ہفتگی برنامہ صدائے امید*

*تلاوت کلام مجید* بردار لیاقت حسین *تلاوت دعائے ندبہ* بردار بشارت حسین بیان تفسیر آیت قرآن سورہ ذاریات آیت نمبر 56 *وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ* برادر تنویر عباس برادر غلام علی برادر زین رضا برادر تابعدار حسین *خطابت* برادر کاشف حسین