
﴿الْیوْمَ
یئِسَ الَّذِینَ کفَرُوا مِنْ دِینِکمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ
نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا.﴾ (المائدة: ۳)
آج کافر لوگ
تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے
تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے
اسلام کو بطور دین پسند کر لیا
خدا وند متعال نے اس آیت میں چار اہم نکات بیان کیے ہیں
۱یاٗس کفار از دین ۲
اکمال دین ۳اتمام نعمت خدا
۴رضایت خدا بر دین اسلام
۱یاٗس کفار از دین
خدا نے نہ روز
بعثت کو ، نہ شب ہجرت ، نہ فتح مکہ اور نہ رسول ﷺ خدا ان جنگوں کو یاٗس کفار کا دن
قرار دیا جو رسول خدا ﷺ نے کفار سے جیتیں لیکن ایک ہی دن ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے
روز یاٗس کفار کہا وہ روز غدیر ہے اور اسی دن کو خدا نے کہا کہ کفار تمہارے دین سے
مایوس ہو چکے ہیں کیوں خدا نے اسی دن کو یہ آیہ نازل کی ؟؟؟؟
کیونکہ کفار اس امید کے ساتھ کے تھے کہ کیوں کہ رسول خدا ﷺ
کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے تو جب رسول خدا ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو دین
اسلام ختم ہو جائے گا لیکن روز غدیر رسول اللہ ﷺ نے امام علی ؑ کو اپنا وصی،
جانشین اور امت کا رہبر بنا کر کفار کے تمام تر منصوبوں اور سوچوں کو خاک میں ملا
دیا جس سے کفار مایوس ہو گئے
روز اکمال دین
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مکمل قواعد و ضوابط وضع کر لیے جائیں
لیکن امت اور معاشرے کے لیے ایک معصوم اور کامل رہنما مقرر نہ کیا جائے تو قواعد و
ضوابط نامکمل رہ جائیں گے یعنی اگر اگر انسانی معاشرہ چاہیے جتنی بھی بلندی پر چلا جائے اور عبادت گزار بن
جائے تو اس کی نماز و عبادتوں کا کوئی فائدہ نہیں جب تک وہ ایک معصوم امام اور وصی
رسول کو نہ مانے کیونکہ امام معصوم کا کام قوانین خدا کو اجرا کرنا ہے اگر وہ ہی
نہ ہو معاشرہ دین ناقص پر چل پڑے گا
روزاتمام نعمت خدا
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے سب سے بڑی نعمت کو امامت (قیادت)
اور ہدایت کی نعمت کے طور پر متعارف کرایا ہے اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس
دنیا سے رخصت ہو جائیں اور لوگوں کو بغیر کسی جانشین کے چھوڑ دیں تو اس کی مثال
ایسی ہےکہ جیسے ایک چرواہا اپنے ریوڑ کو تنہا چھوڑ دے یعنی رسول خدا کی رحلت کے
بعد امت خدائی قیادت کے بغیر نعمت کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟ یعنی امامت خدا کی سب سے
بڑی نعمت ہے جس طرح ہم ہر نماز میں ہر رکعت کے اندر سورہ حمد میں خدا سے کہتے ہیں
کہ خدایا ہمیں اس راستے سے ہرگز دور نہ کرنا جس پر تو نے نعمتیں نازل کیں یہاں
نعمتوں سے مراد پھل مال دولت نہیں بلکہ آئمہ علیہ السلام ہیں
۴رضایت خدا بر دین اسلام
اس روز کے بعد خدا نے کیوں کہا کہ میں اس دین یعنی اسلام
پر راضی ہوں کیونکہ خدا کی رضا یہ ہے جب میرے قوانین کامل ہو گئے تو جب قانون
کاملہ اورعدل و انصاف ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے تو خدا کی رضا حاصل ہو جائے گی۔
جب دین کامل ہو گیا تو خدا نے فرمایا کفار تمہارے دین سے
خوف زدہ ہو چکے ہیں اس بات کی واضح تفسیر آج کا زمانہ ہے کہ آج اسرائیل و امریکہ
اور اس کے حواری اس دین کامل کے ماننے والے شیعہ سے اسقدر مایوس ہو چکا ہے کہ وہ
پوری دنیا میں اس خاتمے کا خواہشمند ہے اور وہ اس دین کے غلبے جس کا قرآن میں خود
خدا نے وعدہ کیا ہے اس ڈر کر اس کے مقابلے کے لئے پہلے سے تیاری کر رہا ہے
لیکن آج عالم تشیع کے دو گروہ ہیں
اعتقادی شیعہ سلوکی
شیعہ
اعتقادی شیعہ: جو فقط عقائد تشیع
پر اکتفاء کیے بیٹھے ہیں بعض تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں یہی عقائد کافی ہیں اگر نماز
روزہ نہ بھی کریں تو کوئی مسئلہ نہیں
سلوکی شیعہ: وہ عقائد تشیع کو لے آگے بڑھے اور دین اسلام پر
عمل کرتے ہوئے وقت کے فرعون نمرود کے خلاف بنر آزما ہوئے جس کی تازہ مثال حزب
اللہ لبنان، انصار اللہ یمن ، حشد شعبی عراق اور سپاہ قدس و سپاہ پاسداران ہیں
یہ انہی مومنین میں سے ہیں جنہوں رسول ﷺ سے وعدہ کیا کہ ہم
ہمیشہ حق کے ساتھ رہیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے اور آج حزب اللہ انصار اللہ نے
مظلومین غزہ کی حمایت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ یہ ان مومنین میں سے ہیں جنہوں نے
اللہ اور رسول ﷺ پیچھے نہ ہٹنے کا وعدہ کیا اور جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے
﴿ مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا
مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن
یَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا﴾
[ الأحزاب:
23]
مومنین میں
ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ان میں بعض نے
اپنی زمہ داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور ذرا بھی نہیں
بدلے
یہ ہیں مومن
جو دشمن اسلام کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور شہادتیں دیتے ہیں آج غزہ کا کوئی بھی
حامی ہے تو وہ شیعیان حیدر کرار ہیں
خدا وندمتعال
سے دعا گو ہیں کہ خدا وند عالم مظلومین غزہ و یمن و لبنا کی مدد فرمائے
کاشف حسین