صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز
صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز

صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز

تفسیر سورہ حجرات آیہ 12 برادر عقیل رضا

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

موضوع غیبت

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۚ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِیمٌ [1]

اے مومنوں اکثر گمانوں سے اجتناب  کریں  یقینا بعض گمان گناہ ہیں  اور تجسس مت کریں اور غیبت مت کریں کیا تم میں سے کوئی ایک پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اس کو برا سمجھتے ہو تقوی الہی اختیار کریں یقینا اللہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے ۔

شان نزول لایغتب ۔۔۔۔

یہ آیہ دو صحابہ پیامبر اکر م ﷺ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے حضرت سلمان اور اسامہ کی غیبت کی   ان دو نے سلمان ؓ کو رسول خداﷺ کے پاس بھیجا کہ خوئی غذا لے آئے رسول اللہ ﷺ نے اسامہ (مسئول مالیات) کے پاس بھیجا اسامہ نے کہا کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہے ان دو نے یہ سنا تو سلمان اور اسامہ کے بارے میں غیبت کی اور کہا اسامہ بخیل ہیں پھر یہ رسول ﷺ کی خدمت میں آئے تو رسول اللہ ﷺ نے کہا میں تمہارے میں منہ میں سبز گوشت کا رنگ دیکھ رہا ہوں انہوں نے کہ یا رسول اللہ ﷺ آج تو ہم نے گوشت نہیں کھایا رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں تم نے آج اسامہ و سلمان کا گوشت کھایا ہے انکی غیبت کی  ہے اور یہ آیہ پھر نازل ہوئی۔

تعریف غیبت

اس سے مراد کسی شخص کی طرف ایسی نسبت دینا کہ اگر وہ سنے تو ناراض ہو اب وہ نقص اس کے بدن کا ہو یا اسکی صفات کا ہو مثلا فلاں کا قد چھوٹا ہے یا فلاں بخیل ہے اس کو سن کر وہ ناراض ہو

امام خمینی فرماتے ہیں کہ غیبت صرف الفاظ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اشارہ اور ہر اس حکایت کو شامل ہے جو کسی کے نقص پر دلالت کرے اور کراھت شخص مغاب علیہ دخیل نہیں ہے ۔

جس نقص یا عیب کو بیان کیا جا رہا ہے وہ اس میں پایا جاتا ہو اگر نہیں پایا جاتا تو وہ تھمت ہے جو غیبت سے بڑا گنا ہ ہے ۔

شرائط غیبت

۱۔ جسکی غیبت کی جارہی ہے وہ مومن ہو ۔

۲۔ غیبت نقص وعیب میں شمارہوتی ہے ناکہ کمال میں ۔

۳۔ وہ عیب بیان شدہ عموم عوام میں ناپسندیدہ ہو۔

۴۔غیبت کے وقت کوئی سننے والا ہو ۔

درج بالا شرائط کی صور ت میں غیبت محسوب ہو گی

غیبت فقھی لحاظ سے گناہ کبیرہ ہے اور عوام میں یہ ایک معروف گناہ ہے اور اس قدر عام ہے کہ اس میں قباحت ختم ہو گئی ہے اگر کسی کو کہیں کہ غیبت ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس کے سامنے بھی کہوں گا یہ اور بد ہے اور انتہائی غلط توجیہ ہے  اخلاقی لحاظ سے بھی بد عمل ہے جو معاشرہ کو تباہ کرسکتا ہے یعنی اجتماعی بیماری ہے ۔

غیبت در نگاہ احادیث

۱۔مَنِ اغْتَابَ مُسْلِماً أَوْ مُسْلِمَةً لَمْ یَقْبَلِ اللَّهُ صَلَاتَهُ وَ لَا صِیَامَهُ أَرْبَعِینَ یَوْماً وَ لَیْلَةً إِلَّا أَنْ یَغْفِرَ لَهُ صَاحِبُهُ.[2]

جس نے بھی کسی مسلمان مرد یا مسلمان عورت کی غیبت کی اللہ تعالی اس کی نماز اور روزہ چالیس دن تک  قبول نہیں کر گا مگریہ صاحب غیبت معاف کردے ۔

۲۔  اَلسامِعُ لِلغیبَةِ کَالمُغتابِ؛[3]

 غیبت سننے والا غیبت کرنے والے کی طرح ہے ۔

۳۔ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ اَلْغِیبَةُ أَشَدُّ مِنَ اَلزِّنَا 

رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا  کہ غیبت  زنا سے  بد تر ہے ۔



[1]  سورہ حجرات آیہ ۱۲

[2]  بحارالأنوار(ط-بیروت) ج 72 ، ص 258، ح 53

[3]  تصنیف غررالحکم و دررالکلم ص 221 ، ح 4443