صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز
صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز

صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز

تفسیری نکات سورہ حجرات آیت ۱۴ کاشف حسین خان


قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لکِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمانُ فِی قُلُوبِکُمْ وَ إِنْ تُطِیعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لا یَلِتْکُمْ مِنْ أَعْمالِکُمْ شَیْئاً إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ «14»
بدوی لوگ کہتے ہیں ہم اہمان لائے ہیں کہدیجئےتم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں کچھ  کمی نہیں کرے گایقینا اللہ بخشنے والا ، رحم کرنے والاہے
اہم نکات
اعراب سے مراد بدوؤں سے ہیں، جن میں سے کچھ مومن تھے، جیسا کہ سورۂ توبہ میں ان کی تعریف کی گئی ہے:«وَ مِنَ الْأَعْرابِ مَنْ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ»(۱)
"، لیکن ان میں سے بعض اپنے آپ کو بلند مرتبہ اور ایمان دار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ وہ صرف ایک تازہ مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔
اسلام اور ایمان کے درمیان فرق
فرق در عمق
اسلام ظاہری رنگ ہے لیکن ایمان تمسک کا نام ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اس آیت کے موقع پر فرمایا«وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً» (2) 
"اسلام رنگ الھی ہے"، اور آیت کی تفسیر میں 
«فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‌» «3» 
کی تفسیر میں فرمایا: "خدا کی رسی سے تمسک یعنی یہی ایمان ہے۔" «4»
انگیزہ میں فرق
بعض اوقات اسلام قبول کرنے کا محرک مادی فوائد یا حفظ و سلامتی کا حصول ہے، لیکن ایمان کا انگیزہ یا محرک فقط اور فقط معنوی ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "اسلام قبول کرنے سے انسان کا خون محفوظ(کافر نہیں رہتا جس سے جنگ کا حکم ہے) رہے گا اور مسلمانوں کے ساتھ شادی جائز ہوگی، لیکن آخرت کا توشہ فقط اور فقط ایمان پر منحصر ہے۔(۵)
فرق عملی
عمل کے بغیر اسلام کا اقرار ممکن ہے، لیکن ایمان کے ساتھ لازما عمل بھی ہونا چاہیے، جیسا کہ ہم حدیث میں پڑھتے ہیں: 
 «الایمان اقرار و عمل و الاسلام اقرار بلاعمل» «6» 
پس ایمان میں اسلام پوشیدہ ہے۔لیکن اسلام میں ایمان پوشیدہ نہیں ہے۔
ایک اور حدیث میں اسلام کو مسجد الحرام سے تشبیہ دی گئی ہے اور کعبہ کو ایمان سے جو مسجد الحرام کے وسط میں واقع ہے۔ (۷)
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: ایمان وہ چیز ہے جو دل مستقر ہو اور جس کے وسیلے سے انسان خدا تک پہنچتا ہے اور عمل دل میں اس ایمان کی تصدیق کرتا ہے۔ لیکن اسلام ایک ایسی چیز ہے جو قول و فعل میں ظاہر ہوتی ہے، بھلے ہی وہ دل میں نہ ہو۔(۸)
رتبہ میں فرق
اس حدیث میں ہم پڑھتے ہیں:ایمان اسلام سے ایک درجہ بلند ہے اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ بلند ہے، اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بلند ہے، اور لوگوں میں کوئی چیز قدرے یقین میں بلند تقسیم نہیں کی گئی ہے۔(۹)
پیغامات آیت
(۱) ہمیں کسی بھی دعوے اور نعروں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ 
«و قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا»
(۲) ہمیں غلط دعووں کو روکنا چاہئے۔
«قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا»
(۳)جو شخص اپنی حریم کو برقرار رکھتا ہے اور اپنے آپ کو اس سے زیادہ پیش نہیں کرتا ہے۔
«قُولُوا أَسْلَمْنا»
(۴)اسلام ایک ظاہری چیز ہے لیکن ایمان کا تعلق دل سے ہے۔
«فِی قُلُوبِکُمْ»
(۵)کمال کا دعویٰ کرنے والوں کو اس طرح بولنا چاہیے کہ وہ کمال حاصل کرنے سے مایوس نہ ہوں۔
«وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمانُ فِی قُلُوبِکُمْ»
(۶)ایمان حاصل کرنے کا راستہ عمل و اطاعت ہے نہ کہ زبانی دعوے۔ 
لَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمانُ‌ ... وَ إِنْ تُطِیعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ‌ 
(۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ آتی ہے اور یہ عصمت کی نشانی ہے۔
اور نبی ہی ہیں کہ جن کی اطاعت بغیر چون وچراں  کے کرنی چاہئے۔ 
«إِنْ تُطِیعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ»
(۸) خدا عادل ہے اور انسان کے اعمال کی پاداش میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کرتا۔ (مناسب مدیریت کا مطلب یہی ہے کہ کسی کے حقوق میں ذرہ برابر بھی کمی نہ کی جائے۔ 
«لا یَلِتْکُمْ مِنْ أَعْمالِکُمْ شَیْئاً»
(۹)اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت  اللہ کی مغفرت اور رحمت حاصول کی بنیاد ہے۔
طِیعُوا ... إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ‌

حوالہ جات
(۱)توبه، 99.
(۲)بقره، 138.
(۳)بقره، 256.
(۴)کافى، ج 2، ص 14.
(۵)کافى، ج 2، ص 24.
(۶)کافى، ج 2، ص 24.
جلد 9 - صفحه 197
(۷)کافى، ج 2، ص 52.
(۸)کافى، ج 2، ص 26.
(۹)  .[الکافی : 2/52/6]