صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز
صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز

صدائے اُمید اسلامی فکری مرکز

شھادت سید حسن نصراللہ برادر شیر عباس

بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِیمِ

فقال امام زین العابدین علیہ السلام  أَبِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنی یَابْنَ زِیاد، أَما عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنا عادَةٌ وَ کَرامَتَنَا الشَّهادَةُ امام زین العابدین علیہ السلام کا ابن زیاز کو دندان شکن جواب  جس وقت امام علیہ السلام ابن زیاد کے دربار میں حاضر ہوئے تو ابن زیاد نے پوچھا کون ہو تم ؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا میں علی ابن الحسین ہوں ۔ابن زیاد کہتا ہے مگر کربلا میں علی ابنِ الحسین کو خدا نے قتل نہیں کیا ؟ آپ علیہ السلام نے اس کو جواب دیتے ہوئے فرمایا میرا ایک بھائی علی ابن الحسین تھا جس کو ظالم لوگوں نے قتل کیا. ابن زیاد نے کہا نہیں: اس کو خدا نے قتل کیا ہے! امام چهارم نے اس آیہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرمایا آیه ۴۲ سوره زمر فرمود: «أللهُ یَتَوَفَّى الاَْنْفُسَ حِینَ مَوْتِهَا»اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحوں کو لیتا  (یعنی امام علیہ السلام فرما رہے تھے کہ اگرچہ موت کے وقت خدا روح قبض کرتا ہے مگر میرے بھائی کو ظالموں نے قتل کیا) یہ جواب سن کر ابن زیاد غصے سے کہا ابھی تک اتنی جرات سے مجھے جواب دیتے ہو ؟ پھر کہا لے جاؤ اس کو قتل کردو 

پھر حضرت زینب سلام اللہ درمیان میں آگئ اور کہا اے ابن زیاد اگر اس کو قتل کرنا ہے تو ھمیں بھی قتل کرو .امام علیہ نے حضرت زینب سلام اللہ کی طرف نگاہ کیا اور فرمایا پھوپھو جان آپ صبر کریں میں جواب دیتا ہوں.پھر امام علیہ السلام نے ابن زیاد کی طرف نگاہ کرکے فرمایا

«أَبِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنی یَابْنَ زِیاد، أَما عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنا عادَةٌ وَ کَرامَتَنَا الشَّهادَةُ۔

(اے ابن زیاد! تو ھمیں موت سے ڈراتا ہے ؟کیا تو نہیں راہ خدا میں قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شھادت ہمارے لیے فخر اور سعادت ہے )

آج کے زمانے میں اگر ہم سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کی زندگی کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے امام کی طرح جرات مندانہ زندگی کیا.جب طاغوت نے ڈرانے کی کوشش کیا تو جواب دیا ہم قتل سے ڈرنے والوں میں سے نہیں بلکہ راہ خدا میں قتل ہونے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں . سید مقاومت نے یہ درس کہا لیا ؟ حقیقت میں سید مقاومت مکتب رہبری کے پروردہ ہے اور رہبر معظم مکتب امام خمینی کے پروردہ ہے اور امام خمینی مکتب سید شھداء امام حسین علیہ السلام کے پروردہ ہے .خود امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا (ما ھر چی داریم از سید شھداء داریم) اسی وجہ سے جس نے بھی مکتب حسین سے درس لی ہو وہ وقت کے یزید کے خلاف قیام کرتا ہے اور ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے . امام حسین علیہ السلام کا وقت کے یزید کو لرکار کے جواب دیا  (ألا وَإنَّ الدَّعیَّ ابنَ الدَّعیِّ قَد رَکَّزَ بَینَ اثنَتینِ بَینَ السُلَّهِ وَالذِلَّةِ وَهَیهاتَ مِنّا الذِلَّةُ) اس نابکار کے نبکار بیٹے نے مجھے دو راستوں پر کھڑا کیا ہے ایک ذلتکا راستہ اور ایک عزت کا راستہ اور میں حسین ذلت سے دور ہوں .    اسی طرح سید مقاومت نے سر نہیں جھکایا بلکہ عزت کا راستہ اختیار کیا اور اپنے مولا کی طرح شھادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوگئے